خلوتوں سے نباہ کر آیا
خلوتوں سے نباہ کر آیا
زندگی کو تباہ کر آیا
روشنی کے تھے سب مرید سو میں
تیرگی سے نکاح کر آیا
بے سبب سر دھرا گیا الزام
اس لیے میں گناہ کر آیا
اس کی اور دیکھا تک نہیں میں نے
کوہ کا فخر کاہ کر آیا
ذکر کر یاروں میں محبت کا
جنگ کی افتتاح کر آیا
دیکھ کر مجھ کو طنز کس رہے تھے
ہنس کے میں واہ واہ کر آیا