داستاں یوں بدل گئی ہوگی
داستاں یوں بدل گئی ہوگی
موج ساحل نگل گئی ہوگی
تم کو شاید یقیں نہ آئے پر
آگ پانی سے جل گئی ہوگی
چند پل رہتی ہے انا اس کی
برف بن کر پگھل گئی ہوگی
ہائے انجام کس گماں کا ہے یہ
شاخ کچھ پھول پھل گئی ہوگی
رات بھر آسمان رویا تھا
صبح سیلن سے گل گئی ہوگی
دیکھ حالت مری جبینیں کئی
گرتے گرتے سنبھل گئی ہوگی
موڑ سے دوری پر کھڑا ہوں میں
گاڑی رستہ بدل گئی ہوگی
گھاؤ دیتی ہے اب وہ موم زباں
غیر سانچے میں ڈھل گئی ہوگی
پہلے جو تھا وہی ہوں میں اب بھی
فطرت اس کی بدل گئی ہوگی