کون ہوں کیا ہوں بتاتی نہیں صورت میری

کون ہوں کیا ہوں بتاتی نہیں صورت میری
آئنے میں بھی ہے روپوش حقیقت میری


برف سی یوں تو جمی رہتی ہے ہونٹوں پہ مگر
شعلہ بن جاتی ہے آنکھوں میں صداقت میری


دستکیں شور میں تبدیل ہوں اس سے پہلے
کاش لے جائے کوئی مجھ سے سماعت میری


یہ بھی موسم کا تقاضا ہے کہ غنچہ کی طرح
ہر نئی شاخ پہ کھل جاتی ہے حیرت میری


حادثہ میرے مقدر میں یہ لکھا ہی نہیں
ورنہ دم توڑ چکی ہوتی شرافت میری