کل سے آج تک

مگر وہ سب کچھ بھلا چکی ہے
کہ جس کے ہم راہ بیتا بچپن
کہ جس کے ہم راہ تھی جوانی
امنگیں پروان چڑھ رہی تھیں
وہ بے خبر روز و شب کی یادیں
کبھی کبھی چھوٹی موٹی باتوں پہ روٹھ جانا
نہ بات کرنا نہ ساتھ رہنا
جو میں مناؤں تو وہ نہ مانے
وہ پیار کیا تھا خدا ہی جانے
مگر وہ سب کچھ بھلا چکی ہے


کہ جس کے ہم راہ بیتا بچپن
کہ جس کے ہم راہ تھی جوانی
جو ہوش آیا
تو اس نے اک ساتھ مرنے جینے کی کھائیں قسمیں
مگر وہ سب کچھ بھلا چکی ہے
کہ جس کی زلفوں میں زندگی کی تمام قدریں الجھ گئی تھیں
کہ جس کے ماتھے کی سرخ بندی مرا نصیبہ جگا رہی تھی
کہ جس کی نظروں سے میں نے یکسانیت کی مے پی
کہ جس کے نازک لبوں پہ میرے لیے تبسم کی روشنی تھی
کہ جس کی سانسوں میں میرے سنگیت کی صدا تھی
کہ جس کے سینے کی دھڑکنوں میں مرے لیے ایک زلزلہ تھا
کہ جس کی گفتار نرم و نازک نے زہر‌ شیریں پلائے مجھ کو
کہ جس کے زانو پہ میرا سر تھا
مگر وہ سب کچھ بھلا چکی ہے


کہ جس کے ہم راہ بیتا بچپن
کہ جس کے ہم راہ تھی جوانی
کہ جس نے اک راہ پر ہی گیارہ برس گزارے تھے ساتھ میرے
وہ راہ جس پر محبتیں تھیں مسرتیں تھیں
مصیبتیں تھیں
مگر وہ ظالم
کہ جس نے اپنی خوشی کے آگے
نہ خود کو سمجھا نہ مجھ کو جانا
طلسم حسن و یقین ٹوٹا
تو وہ نہیں تھی
جو ہم سفر تھی
میں اپنی منزل میں اپنے رستے پہ اب اکیلا ہی جا رہا ہوں