کیسے کبھی کسی کو دکھائے گا آئینہ
کیسے کبھی کسی کو دکھائے گا آئینہ
جب ایک دوسرے کو لڑائے گا آئینہ
جس روشنی پہ عکس کا دار و مدار ہے
اس روشنی کو کون دکھائے گا آئینہ
فطرت میں اس کی ناز خرامی نہیں تو پھر
کیوں کر کسی کے ناز اٹھائے گا آئینہ
سمجھو کہ آئینے کا جنازہ نکل گیا
جس دن امیر شہر کو بھائے گا آئینہ
ایسا نہیں کہ صرف سنوارے گا شخصیت
احسان بھی نہ تم پہ جتائے گا آئینہ
پردا پڑا ہو آنکھوں پہ ممکن تو ہے مگر
ممکن نہیں کہ عیب چھپائے گا آئینہ
کہہ دو انا پرست سے احیاؔ کہ جلد ہی
میں اور ہم کے درمیاں آئے گا آئینہ