کیسے گزر رہے ہیں یہ دن رات کیا کہیں
کیسے گزر رہے ہیں یہ دن رات کیا کہیں
مجھ سے چھپے ہوئے نہیں حالات کیا کہیں
سب چشمہ ہائے چشم بہے پھوٹ پھوٹ کے
جس طرح اب کے برسی ہے برسات کیا کہیں
کیا حادثہ تھا ہجر رفیقاں بتائیں کیا
کیا سانحہ تھا ان سے ملاقات کیا کہیں
تم جان لو حبیب جو محسوس کر سکو
کہنے کی بھی نہیں ہے ہر اک بات کیا کہیں
رہزن سے بچ کے نکلے تو وہ آشنا ملا
کیسی مگر لگائے ہوئے گھات کیا کہیں
اپنا سا ہو جو مد مقابل تو بات ہو
تجھ سے ہم اے عدوئے کم اوقات کیا کہیں
شوکتؔ ادب کے نام پر مقبول عام ہے
کس کس طرح کا لغو خرافات کیا کہیں