کہنے لگی ہے مجھ سے ہوا کچھ ہوا تو ہے

کہنے لگی ہے مجھ سے ہوا کچھ ہوا تو ہے
سننے میں آ رہی ہے سدا کچھ ہوا تو ہے


محسوس کر رہا ہوں زمیں کی نمی کو میں
دن رات رو رہی ہے ہوا کچھ ہوا تو ہے


لڑکی اٹھا کے ہاتھ فلک دیکھنے لگی
روٹھا ہوا ہے کیا یہ خدا کچھ ہوا تو ہے


مدہوش ہو رہا ہوں بدن کو سنبھال تو
کیا آ رہی ہے کوئی قضا کچھ ہوا تو ہے


مجھ کو نکلنا آج میرے جسم سے پڑا
میں ہی ہوا ہوں مجھ سے جدا کچھ ہوا تو ہے


کلیاں سسک کے رونے لگی چاند رات میں
اور پیڑ دے رہا ہے سدا کچھ ہوا تو ہے


روتا ہوا جو دیکھا اسے دشت گاہ میں
تنہائیوں نے مجھ سے کہا کچھ ہوا تو ہے


مرشد ہی جانتا ہے کے کیا حادثہ ہوا
مرشد ہی نے یہ مجھ سے کہا کچھ ہوا تو ہے


مجھ کو پڑا ملا ہے وہ مجھدھار میں تو پھر
پانی پے ہے یہ کس نے لکھا کچھ ہوا تو ہے


کوئی نہیں تھا جو کی سنے اس کی بات کو
آخر وہ بولتا ہی رہا کچھ ہوا تو ہے


آواز آ رہی ہے کوئی چیختی ہوئی
ارپتؔ نکل کے دیکھ ذرا کچھ ہوا تو ہے