جسم کے اس کھنڈر کی تنہائی
جسم کے اس کھنڈر کی تنہائی
اور یہ رات بھر کی تنہائی
ایک تصویر بھی نہیں گھر میں
اف یہ دیوار و در کی تنہائی
کوئی آہٹ نہ کوئی سایہ ہے
ہر قدم ہے سفر کی تنہائی
ایک عالم کو ہے سمیٹے ہوئے
میری فکر نظر کی تنہائی
میری سانسوں میں بس گئی جیسے
جان و دل کی جگر کی تنہائی
کتنی بیزار ہے یہ موسم سے
ثمر آور شجر کی تنہائی
دیکھتا ہے نکل کے سورج روز
یہ مرے بام و در کی تنہائی
رات دن روتے ہے در و دیوار
کھا گئی مجھ کو گھر کی تنہائی
زندگی کے سفر میں اے ارپتؔ
دیکھ لی در بہ در کی تنہائی