کہیں ملا نہ کوئی ہم نوا سلیقے سے
کہیں ملا نہ کوئی ہم نوا سلیقے سے
اگرچہ دیتا رہا میں صدا سلیقے سے
ملی ہے داد مجھے اپنی سخت جانی کی
گزر گیا ہے ہر اک حادثہ سلیقے سے
دعائیں دیتا ہوں اب تک میں ان کے جلووں کو
جنہوں نے آنکھوں کو بخشی سزا سلیقے سے
بوقت نزع تبسم تھا میرے ہونٹوں پر
یوں میرے سامنے آئی قضا سلیقے سے
لگا کہ اب بھی جہاں میں خلوص زندہ ہے
ملا کبھی جو کوئی آشنا سلیقے سے
وہی ہے حبس وہی ہے عتاب تشنہ لبی
چلی نہ آج بھی باد صبا سلیقے سے
مجھے شعور ہے اے شانؔ خود کلامی کا
گزر رہی ہے شب ماجرا سلیقے سے