کہیں جاؤں تعلق کا ستارہ چلتا رہتا ہے
کہیں جاؤں تعلق کا ستارہ چلتا رہتا ہے
مرے ہم راہ یہ کس کا اشارہ چلتا رہتا ہے
بصیرت کھو گئی لیکن توقع ہے بشارت کی
کسی کے نام کا اب بھی سہارا چلتا رہتا ہے
اب اک قطرہ بھی دل کی جھیل میں پانی نہیں رہتا
مگر کیا کیجئے تب بھی شکارا چلتا رہتا ہے
کہاں تم آرزوؤں کی حویلی ڈھونڈنے نکلے
یہاں تو بے پناہی میں گزارا چلتا رہتا ہے
ہم اپنے دوستوں پر ناز کچھ یوں ہی نہیں کرتے
کہ ذکر خیر ہو یا بد ہمارا چلتا رہتا ہے
کلیجہ ہے تو میدان عمل میں آ کتابیں لکھ
ادب کے کام میں پیارے خسارہ چلتا رہتا ہے
کبھی آؤ تو دکھلائیں کرشمہ تم کو دریا کا
کہ موجیں منجمد ہیں اور کنارہ چلتا رہتا ہے