کہیں دیوار ہے تو در غائب

کہیں دیوار ہے تو در غائب
اور کہیں پر ہمارا گھر غائب


ہم سفر ہے کہیں سفر غائب
ہے سفر گر تو ہم سفر غائب


اے خدا کون سا طلسم ہے یہ
جسم موجود ہیں یہ سر غائب


شوق پرواز ہے سبھی میں مگر
طائران چمن کے پر غائب


آسماں بھی نہیں رہا سر پر
اس پہ پاؤں سے ہے سفر غائب


میں بھی بیعت کروں بہ دست ہنر
درد دل کو جگر سے کر غائب


مجھ پہ پڑتی نہیں کوئی بھی نظر
میں بھی محفل میں ہوں مگر غائب


تم رہو آنکھ میں تو بہتر ہے
دور ہوں گر تو بحر و بر غائب


یا تو موجود ہی نہیں وہ رہا
یا کوئی آنکھ سے نظر غائب


عشق کے بام پر وہ ہے موجود
کاسۂ شام سے قمر غائب


قحط کیسا پڑا ہے اب کے برس
دست فن کار سے ہنر غائب


سامنے منزلیں سبھی معدوم
مڑ کے دیکھوں تو چارہ گر غائب


زخم طاہر عدیمؔ کیسے بھرے
ہر دوا سے ہوا اثر غائب