کہیں بہار کہیں خار زار کی صورت
کہیں بہار کہیں خار زار کی صورت
جدھر بھی دیکھو وہی انتظار کی صورت
جسے بھی دیکھو مسائل کی بھیڑ میں گم ہے
ہر اک جبیں ہے کسی اشتہار کی صورت
ہتھیلیوں پہ نمایاں ہے جبر کی تحریر
اسی کو کہتے ہیں کیا اختیار کی صورت
ابھی تو شام و سحر دل کے داغ جلتے ہیں
قبائے جاں ہے ابھی تار تار کی صورت
فریب و مکر کے جلتے سلگتے جنگل میں
جھلس کے مسخ ہوئی اعتبار کی صورت
ہجوم غم میں کسی غم گسار کی یادیں
بنیں ہماری نگہباں حصار کی صورت
مرا وجود ہی جب قید سے عبارت ہے
نہیں ہے موت سے پہلے فرار کی صورت
بدل کے دیکھیں تو سیماؔ نظام ہستی کا
کسی طرح سے تو نکلے قرار کی صورت