دشمن نہیں کہ کچھ نہ کہو مجھ کو دوستو
دشمن نہیں کہ کچھ نہ کہو مجھ کو دوستو
کیوں میرے منہ پہ چپ ہو کہو کچھ تو دوستو
میری نظر کا آئنہ صورت شناس ہے
میری نظر کے سامنے آؤ تو دوستو
فصل بہار آنے سے پہلے کی بات ہے
ہم بھی تمہارے ساتھ تھے پہچانو دوستو
مدت گزر گئی ہے بیابان و دشت میں
کانٹا سہی چمن میں بلاؤ تو دوستو
جن بادلوں میں رنگ شفق تیرنے لگے
پھر اس سے کس کرم کی تمنا ہو دوستو
کیا حیلہ ساز فطرت دنیا کا اعتبار
دیکھا ہے ہم نے وقت کی آنکھوں کو دوستو
آواز بازگشت تلاطم ہے زندگی
دریا میں رہ کے موج سے ڈرتے ہو دوستو
مرہم نہیں نہیں نہ سہی نیشتر سہی
کوئی تو زخم دل کا مداوا ہو دوستو
صورت شناس آئنے دھندلا کے رہ گئے
چہروں سے گرد وقت ہٹاؤ تو دوستو
سیماؔ کے ذہن و دل میں رہے گی تمہاری یاد
مقتول بھولتا نہیں قاتل کو دوستو