کہاں ملے گا وہ مجھ سے اگر یہاں بھی رہے
کہاں ملے گا وہ مجھ سے اگر یہاں بھی رہے
مری دعا ہے کہ وہ خوش رہے جہاں بھی رہے
دل خراب یہ خواہش تری عجب ہے کہ وہ
ستم بھی کم نہ کرے اور مہرباں بھی رہے
ابھی زمین پہ جنت نہیں بنی یارو
جہاں کے قصے سناتے ہو ہم وہاں بھی رہے
رہا ہمیشہ ہی سامان مختصر اپنا
مسافروں کی طرح ہم رہے جہاں بھی رہے
جو ساتھ چلنے کے بھی مستحق نہ تھے باصرؔ
کچھ ایسے لوگ یہاں میر کارواں بھی رہے