کبھی جبر و ستم کے روبرو سر خم نہیں ہوتا

کبھی جبر و ستم کے روبرو سر خم نہیں ہوتا
مرا جذب صداقت غیر مستحکم نہیں ہوتا


سروں کی فصل کٹنے کا یہ موسم تو نہیں لیکن
سروں کی فصل کٹنے کا کوئی موسم نہیں ہوتا


جنہیں آتا ہو فن اوروں کے غم اپنائے جانے کا
انہیں تا زندگی دنیا میں کوئی غم نہیں ہوتا


ہمارے دور میں اب نفسا نفسی کا یہ عالم ہے
جنازے روز اٹھتے ہیں مگر ماتم نہیں ہوتا


زباں کے تازیانے سے کلیجے پر جو لگتا ہے
وہ ایسا زخم ہے جس کا کوئی مرہم نہیں ہوتا


ملی اسلاف سے جاویدؔ مجھ کو صدق کی دولت
سلوک ناروا سے بھی یہ جذبہ کم نہیں ہوتا