فلک کو فکر کوئی مہر و ماہ تک پہونچے

فلک کو فکر کوئی مہر و ماہ تک پہونچے
ہمیں یہ زعم کہ ہم واہ واہ تک پہونچے


انہیں نہ رکھ تو کرم کی نگاہ سے محروم
جو لٹ لٹا کے تری بارگاہ تک پہونچے


ہوا نہ ہم سے مداوائے درد نوع بشر
بہت چلے تو ثواب و گناہ تک پہونچے


نہ جانے کب سے ہوں سرگرم جستجو اے دوست
نہ جانے کب رخ منزل نگاہ تک پہونچے


وفور شوق میں یہ احتیاط ہو نہ سکی
کہ آرزو نہ ہماری نگاہ تک پہونچے


ہماری زیست کی روداد گل یہ ہے جاویدؔ
کہ میکدے سے چلے خانقاہ تک پہونچے