ناکامئ صد حسرت پارینہ سے ڈر جائیں

ناکامئ صد حسرت پارینہ کے ڈر جائیں
کچھ روز تو آرام سے اپنے بھی گزر جائیں


اے دل زدگاں اب کے بھی اس فصل جنوں میں
پھر بہر خرد نوک سناں کتنے ہی سر جائیں


یہ رشتۂ جاں تار رگ جان کی مانند
ٹوٹے جو کبھی خاک میں ہم خاک بسر جائیں


ہے حرف شناسی کسی آئینے کی مانند
پتھر کوئی پڑ جائے تو سب حرف بکھر جائیں


پروردۂ شب کو ہے کہاں جرأت اظہار
ڈرتے ہیں کہ شانوں سے کہیں سر نہ اتر جائیں


اس قریۂ یخ بستہ میں اے شعلہ صفت آ
جذبات نہ اجسام کی مانند ٹھٹھر جائیں


یہ خرقۂ درویشی ہمیں راس ہے جاویدؔ
دستار و قبا پہن لیں ہم لوگ تو مر جائیں