دانش و فہم کا جو بوجھ سنبھالے نکلے

دانش و فہم کا جو بوجھ سنبھالے نکلے
ان کے اذہان پہ افکار پہ جالے نکلے


میں یہ سمجھا کہ کوئی نرم زمیں آ پہونچی
غور سے دیکھا تو وہ پاؤں کے چھالے نکلے


زخم کھا کر یہ تھی خوش فہمی کہ مر جائیں گے
دوستو ہم تو بڑے حوصلے والے نکلے


دل ٹٹولا شب تنہائی تو محسوس ہوا
ہم بھی اے دوست ترے چاہنے والے نکلے


آج کے دور کے سقراط پہ کیا ہوگا اثر
اپنی ہی ذات میں جو زہر کے پیالے نکلے


پھن کو پھیلائے جو یہ آج کھڑے ہیں جاویدؔ
آستیں کے یہ مری اپنے ہی پالے نکلے