کبھی ہاتھوں میں اپنے کاسۂ ذلت نہیں لے گا

کبھی ہاتھوں میں اپنے کاسۂ ذلت نہیں لے گا
جو ہے خوددار وہ خیرات کی دولت نہیں لے گا


جسے خانہ بدوشوں کی طرح جینے کی عادت ہے
کہیں بھی مستقل سر پر وہ کوئی چھت نہیں لے گا


ابھی پکی سڑک سے گاؤں میرا دور ہے صاحب
کوئی پانی پلا کر آپ سے قیمت نہیں لے گا


وہ ڈاکو ہے تو سب کچھ چھین کر لے جائے گا لیکن
نہ لے گا علم وہ میرا مری قسمت نہیں لے گا


جو روشن آسماں پر چاند ہے کہہ دو اسے اشرفؔ
کہ جگنو تیرے حصے کی کبھی شہرت نہیں لے گا