عشق میں جو نہیں برباد وہ رانجھا کیا ہے
عشق میں جو نہیں برباد وہ رانجھا کیا ہے
ناؤ ڈوبی نہ کبھی جس میں وہ دریا کیا ہے
اس حقیقت کی طرف اور دکھانا کیا ہے
تیس کے چاند میں اے دوستو رکھا کیا ہے
پھینک کر دیکھ لو سکہ کبھی اک چاندی کا
جال میں آدمی پھنستا ہے پرندہ کیا ہے
چھت سے پھینکی ہوئی لڑکی سے یہ کیا پوچھتے ہو
ہم سے پوچھو کہ یہ مٹی کا کھلونا کیا ہے
ان کے جلووں کی نمائش میں ہے اب تاب کسے
ٹوٹ جاتے ہیں جو پتھر کے ہیں شیشہ کیا ہے
خود کو سمجھایا اکیلے میں بہت یہ کہہ کر
جس میں کھو جائے نہ اپنا کوئی میلہ کیا ہے
خون قانون نمک زہر ہلاہل کے سوا
آپ بتلائیے اس شہر میں سستا کیا ہے