دریا نہیں سراب ہے میں نے کہا نہ تھا
دریا نہیں سراب ہے میں نے کہا نہ تھا
دنیا طلسم خواب ہے میں نے کہا نہ تھا
چھونا اسے عذاب ہے میں نے کہا نہ تھا
اس کا بدن رباب ہے میں نے کہا نہ تھا
پھر بھی تو اس میں بوئے وفا ڈھونڈھتا رہا
وہ کاغذی گلاب ہے میں نے کہا نہ تھا
جو تیرے ارد گرد ہوائیں ہیں ان کے پاس
ہر سانس کا حساب ہے میں نے کہا نہ تھا
پچھتا رہا ہے دوست کو اپنے بلا کے گھر
وہ فطرتاً خراب ہے میں نے کہا نہ تھا
وہ شہ سوار ہے جو خوشی کی تلاش میں
غم اس کا ہم رکاب ہے میں نے کہا نہ تھا
مرعوب آپ کیوں ہوئے اس کے خطاب سے
مانگا ہوا خطاب ہے میں نے کہا نہ تھا
پڑھ کر سنور سکا نہ کوئی آج تک جسے
وہ فالتو کتاب ہے میں نے کہا نہ تھا
کل جس کو دیکھنے میں گئی روشنی تری
اشرفؔ وہ آفتاب ہے میں نے کہا نہ تھا