بھیگے موسم سے لپٹنے کا نتیجہ نکلا
بھیگے موسم سے لپٹنے کا نتیجہ نکلا
اپنا ارمان بھی کاغذ کا کھلونا نکلا
رات کے آخری حصے میں یہ دیکھا میں نے
تیرگی چیر کے سورج کا اجالا نکلا
چور ہیرے کا سمجھتی رہی دنیا جس کو
اس کی مٹھی سے تو تسبیح کا دانہ نکلا
بس میں جب کر نہ سکا اس کو کسی منتر سے
جان ناگن سے چھڑا کر وہ سپیرا نکلا
تازہ پھولوں سے وہ رشتوں کی مہک آتی نہیں
باسی پھولوں سے جو گلدان کا رشتہ نکلا
میں نے اوڑھا تھا جسے دھوپ سے بچنے کے لئے
وہ بھی گرتی ہوئی دیوار کا سایہ نکلا
سامنے جس کے تھی ہیرے کی چمک بھی پھیکی
اس کو پرکھا جو کسوٹی پہ تو شیشہ نکلا
زلزلہ آنے کے آثار بتانے کے لئے
پھڑپھڑا کر مرے کمرے سے پرندہ نکلا
تیرے اشعار کی اشرفؔ ہے عجب جادوگری
شاعری کا تری ہر شخص دوانہ نکلا