کبھی چراغ سحر کو بھی ہم بجھاتے نہیں

کبھی چراغ سحر کو بھی ہم بجھاتے نہیں
کہ جس سے کام لیا ہو اسے بھلاتے نہیں


یہ بات ہم کو سمجھنے میں دیر ہو گئی تھی
کہ صرف بات پہ ہی رشتوں کو نبھاتے نہیں


شروع سے ہی تکلف ہے ان سے رشتہ میں
سلام کرتے ہیں پر ہاتھ تو ملاتے نہیں


بس اتنی بات پہ روٹھا ہوا ہے یار مرا
میں روٹھتا بھی ہوں تو تم مجھے مناتے نہیں


زبیرؔ ضبط تمہارا کمال کا ہے یار
تمام زخم ہو کھاتے مگر بتاتے نہیں