برائے زیب میں زیور تمہیں منگا دوں کیا

برائے زیب میں زیور تمہیں منگا دوں کیا
یہ بول کے میں تیرے حسن کو گھٹا دوں کیا


تھکا ہوا ہوں میں سونے دیا کرو مجھ کو
یہ کہہ کے میں تیری نیندوں کو ہی اڑا دوں کیا


ندی میں پھینکے ہوئے پھول بہہ رہے ہیں کچھ
انہیں کے ساتھ خطوں کو تیرے بہا دوں کیا


یہ جسم سنگ کا اب رہ گیا ہے تیرے بعد
اسے تراش کے کوئی خدا بنا دوں کیا


ذرا ذرا سا جو تم روٹھتے ہو بے مطلب
اسی خطا کو تمہاری ادا بتا دوں کیا