گزشتہ دن کی اک تصویر میں نے گھر پہ رکھی تھی

گزشتہ دن کی اک تصویر میں نے گھر پہ رکھی تھی
وہ بس اس بات کو لے کے ہی دھرتی سر پہ رکھی تھی


مرو یا مار دو گر بچ گئے تو پھر رہو تیار
عجب شرط حکومت تھی کہ جو لشکر پہ رکھی تھی


ترے در سے اٹھی تو پھر کہیں بھی یہ نہ ٹک پائیں
نگہ کچھ اس قدر تیرے تن مرمر پہ رکھی تھی


سبھی دانا توانا دست بستہ تھے کھڑے صف میں
سبھی کی چشم پر خواہش وہیں منبر پہ رکھی تھی


قدم ذرہ برابر بھی بڑھا پائیں نہیں جبریل
ہزاروں قوت پرواز ان شہ پر پہ رکھی تھی