جوں ہی نگاہ میں ترا چہرہ اتر گیا
جوں ہی نگاہ میں ترا چہرہ اتر گیا
دامن اداس رات کا تاروں سے بھر گیا
اس بھیڑ میں سوال مری زندگی کا تھا
دستار تھامے ہاتھ میں تو بھی گزر گیا
کب خواب کار عشق میں طے کر سکا کوئی
جتنی مری بساط تھی اتنا میں کر گیا
اس نے جلا بجھا کے ستایا ہزار بار
جب بھی چراغ اسے مری دینے خبر گیا
ترک تعلقات کی بابت نویدؔ آج
پوچھا جب آئنے سے تو وہ بھی مکر گیا