جدا ہے تیرا سلیقہ ہے تیرا ڈھنگ الگ

جدا ہے تیرا سلیقہ ہے تیرا ڈھنگ الگ
لگے ہے سارے مناظر میں تیرا رنگ الگ


رواں تھا گرم لہو آہنی پرندوں میں
چھڑی تھی امن پسندوں میں سرد جنگ الگ


نئی دشاؤں سے مسموم آندھیاں اٹھیں
تو آسماں بھی بدلنے لگا تھا رنگ الگ


نشاط فن تو بہر حال اپنی قسمت ہے
ہزار اپنے مسائل ہیں ان سے جنگ الگ


سیاہ ابر ہوں سورج سے چھین لوں گا ضیا
کروں گا قوس قزح کے میں رنگ رنگ الگ


جدا ہیں تند ہواؤں کے آتشیں نغمے
تو پانیوں کے ترانے ہیں زیر سنگ الگ


میں اپنی شام کو صبح حساب کہتا ہوں
مگر وہ شام جو گزری ہے تیرے سنگ الگ


غزل کے در پہ بڑا اژدہام ہے لیکن
نظامؔ نام ہے جس کا وہ اک ملنگ الگ