نشے میں یہ کیا سمجھ لیا تھا
نشے میں یہ کیا سمجھ لیا تھا
خدا کو بندہ سمجھ لیا تھا
ذرا سی چپ تھی اسی کو تم نے
نہ جانے کیا کیا سمجھ لیا تھا
حسیں تھا وہ اس قدر کہ ہم نے
نظر کا دھوکا سمجھ لیا تھا
میں ایسا پاگل دیا تھا جس نے
ہوا کو اپنا سمجھ لیا تھا
ہم اس کے دل تک پہنچتے کیسے
بدن کو راستہ سمجھ لیا تھا
اسے یوں چھوڑا کہ اس نے ہم کو
بہت زیادہ سمجھ لیا تھا
ہم اپنی غلطی سے بک گئے ہیں
تمہیں زلیخا سمجھ لیا تھا
ہماری سادہ دلی تو دیکھو
خدا کو اپنا سمجھ لیا تھا
ملن جدائی تڑپ اداسی
یہ کھیل سارا سمجھ لیا تھا
تمہاری آنکھیں سمجھ نہ پائے
ہر اک معمہ سمجھ لیا تھا
لب اس نے کھولے نہیں تھے پھر بھی
جواب اس کا سمجھ لیا تھا
وہ آنکھیں کعبہ صفت تھی جن کو
شراب خانہ سمجھ لیا تھا