جو ممکن ہو تو سوز شمع پروانے میں رکھ دینا

جو ممکن ہو تو سوز شمع پروانے میں رکھ دینا
اب اس افسانے کا عنوان افسانے میں رکھ دینا


بڑی کافر کشش ایماں میں ہے اے عازم کعبہ
نہ لے جانا دل اپنے ساتھ بت خانے میں رکھ دینا


مرا دل بھی شراب عشق سے لبریز ہے ساقی
یہ بوتل بھی اڑا کر کاگ میخانے میں رکھ دینا


ابھی آئینۂ تصویر ابھی ہشیار ابھی غافل
تمہیں آتا ہے ہر انداز دیوانے میں رکھ دینا


مرا پیمانۂ ہستی اگر ساقی چھلک جائے
مرے حصے کا خالی جام میخانے میں رکھ دینا


شریک مے جناب شیخ بھی ہو جائیں گے ساقی
ذرا ظرف وضو کا ڈھنگ پیمانے میں رکھ دینا


یہ کیا دست اجل کو کام سونپا ہے مشیت نے
چمن سے توڑنا پھول اور ویرانے میں رکھ دینا


وفور یاس میں قیصرؔ چلے ہیں دل سے چند آنسو
یہ لاشیں ہیں انہیں آنکھوں کے خس خانے میں رکھ دینا