جو کچھ ہوا خبر ہے اسی کی رضا سے ہے

جو کچھ ہوا خبر ہے اسی کی رضا سے ہے
ہم کو گلہ کسی سے نہیں ہے خدا سے ہے


جنت میں مطمئن نہ جہنم میں مضطرب
پروردہ دل زمین کی آب و ہوا سے ہے


دشمن ہے آدمی کا ازل سے خود آدمی
یعنی مقابلہ یہ بلا کا بلا سے ہے


ہر غیر سے تو خوب گزارہ کیا مگر
اے دل معاملہ ترا اب آشنا سے ہے


ہے ذوق کا جمال سے آگے معاملہ
ربط نگاہ شوق تمہاری ادا سے ہے


پھیلائیے سلوک کا ہم تک بھی دائرہ
مطلب روا سے ہے نہ غرض ناروا سے ہے


ہو منفعل کہ بار دگر ہاتھ اٹھ گئے
دل منحرف دعا سے نہیں مدعا سے ہے


قدسی کرے قبا بشریت کی زیب تن
گر واقعی مراد کوئی ارتقا سے ہے


شوکتؔ قلم عدو کے تصرف میں آ گیا
فن میں بپا یہ معرکہ تو ابتدا سے ہے