جو خوں روتی ہے آنکھیں سارا منظر چیخ اٹھتا ہے
جو خوں روتی ہے آنکھیں سارا منظر چیخ اٹھتا ہے
بچھڑ کر مجھ سے کوئی میرے اندر چیخ اٹھتا ہے
کیا اس کا درد ہے کیا غم ہے کوئی اس سے پوچھے تو
ایک ایسا شخص ہے راتوں کو اٹھ کر چیخ اٹھتا ہے
اسے ہے خوب درد دل کی گہرائی کا اندازہ
یہ آنسو دیکھ کر میرا سمندر چیخ اٹھتا ہے
بھری دنیا میں تنہا بے سہارا دیکھ کر خود کو
کوئی معصوم روتا ہے تو پتھر چیخ اٹھتا ہے
تیرے ہونے سے دیوالی ہے میرے گھر میں ہر اک دن
ہر اک پل تیرے جانے کا جو یہ ڈر چیخ اٹھتا ہے
کسی پل بھی نہیں رہتا تری خوشبو سے یہ خالی
نہیں ہوتا ہے تو گھر میں تو یہ گھر چیخ اٹھتا ہے
تو اپنے ساتھ جب سے لے گیا تصویر بھی اپنی
در و دیوار روتے ہیں یہ بستر چیخ اٹھتا ہے
جدا ہو کر بھی انشا کی محبت اس کے دل میں ہے
کسی پر ظلم ہوتا ہے قلندر چیخ اٹھتا ہے
تیری یادوں کی یہ باد صبا جب خون روتی ہے
میرا وہم و گماں اور دل کا کھنڈر چیخ اٹھتا ہے
جہاں ہوتے ہو تم دیکھو گلابی شام ہوتی ہے
تمہارا ذکر ہوتے ہی نومبر چیخ اٹھتا ہے
کسی سے بھی کوئی شکوہ نہیں ارپتؔ مجھے پھر بھی
میرے دل کا یہ سناٹا بھی اکثر چیخ اٹھتا ہے