جو اشک دل پہ گرے وہ شمار کر نہ سکی

جو اشک دل پہ گرے وہ شمار کر نہ سکی
میں اس کے جذبوں کو دل پہ سوار کر نہ سکی


وہ کر رہا تھا بغاوت پہ مجھ کو آمادہ
مگر قبیلے کی عزت پہ وار کر نہ سکی


وہ سبز باغ دکھاتا تھا مجھ کو وعدوں کے
یہ آنکھ اس پہ مگر انحصار کر نہ سکی


بچھڑ کے تجھ سے مری خود سے جنگ جاری رہی
میں دل کی دنیا کبھی سازگار کر نہ سکی


وہ میرے ساتھ ہے ہم زاد کی طرح ایمنؔ
میں جس پہ حالت دل آشکار کر نہ سکی