گاؤں والے کہاں بدلتے ہیں

گاؤں والے کہاں بدلتے ہیں
آؤ ہم ہی جہاں بدلتے ہیں


ایک ہم سے گریز کی خاطر
کتنے وہ آشیاں بدلتے ہیں


وہ عقیدت کے رنگ کیا جانیں
روز جو آستاں بدلتے ہیں


عقل والوں نے ہار کر یہ کہا
عشق والے کہاں بدلتے ہیں


ہم کو اردو ہے جان سے پیاری
ہم نہیں وہ جو جاں بدلتے ہیں


کیوں نہیں آتی ہیں ابابیلیں
آؤ طرز فغاں بدلتے ہیں


رت جو بدلی تو میں نے یہ جانا
کیوں پرندے مکاں بدلتے ہیں


وقت پڑنے پہ جانا ہے ایمنؔ
کس طرح مہرباں بدلتے ہیں