جا چھپی ہے کہاں گپھاؤں میں

جا چھپی ہے کہاں گپھاؤں میں
اے خوشی اب جھلک اداؤں میں


زندگی بوجھ بنتی جاتی ہے
کچھ تو ترمیم کر سزاؤں میں


اک نظر تو پلٹ کے دیکھ ذرا
میں بھی ہوں تیری آشناؤں میں


شہر کا شہر یوں دوانہ نہیں
بات کچھ تو ہے ان اداؤں میں


دید سے ہی علاج ممکن ہے
زہر ہی زہر ہے دواؤں میں


زیست کی ہر تپش میں جلتی رہی
یار بیٹھے رہے ہواؤں میں


اے حیات اسقدر نہ مشکل ہو
خوف ہو تیری دھوپ چھاؤں میں


مجھ کو تسلیم ہے جفا تیری
ہے عقیدت مری وفاؤں میں


مجھ کو مجھ سے چرانے والے سن
تو ہے شامل مری دعاؤں میں


آسماں میں بھی چھو ہی سکتی تھی
بیڑیاں ہیں انیک پاؤں میں


ذکر اب تو کرو محبت کا
کتنی نفرت ہے ان فضاؤں میں


رات بھر جاگتے ہیں بچے بھی
اب نہیں فرق شہر گاؤں میں


بس پسینے نصیب میں آئے
زندگی تیری دھوپ چھاؤں میں


وقت کے مارے تنہا تم ہی نہیں
میں بھی شامل ہوں مبتلاؤں میں


زندگی اور کتنا چلنا ہے
آبلے پڑ گئے ہیں پاؤں میں