جسے ہے زعم کہ اس نے ہوا کے پر باندھے

جسے ہے زعم کہ اس نے ہوا کے پر باندھے
اگر ہے دم تو ہماری دعا کے پر باندھے


اٹھائے ہاتھ عذاب و بلا کے پر باندھے
یہ کس دعا نے کسی بد دعا کے پر باندھے


ہوئی نہ آج بھی توبہ کے ٹوٹنے کی سبیل
خدا نے آج بھی کالی گھٹا کے پر باندھے


کوئی تو ہو جو اسے روک لے تباہی سے
کوئی تو ہو جو دل مبتلا کے پر باندھے


ہماری سوچ کی پرواز روکنا تھا محال
ہمیں نے جان کی بازی لگا کے پر باندھے


کئی دنوں سے کسی کا سلام ہے نہ پیام
مرے عدو کی بازی لگا کے پر باندھے


شفا کی آس لگائے مریض بیٹھا ہے
دعا کو ہاتھ اٹھائے دوا کے پر باندھے


حفیظؔ موت سے لقمان بچ سکے کب تک
بڑے حکیم تھے کب تک قضا کے پر باندھے