جس طرح ہوا جس طور ہوا ہر ظلم گوارا ہو تو گیا

جس طرح ہوا جس طور ہوا ہر ظلم گوارا ہو تو گیا
جی جی کے مرے مر مر کے جیے دنیا میں گزارا ہو تو گیا


اس فکر میں ہوں اس سوچ میں ہوں انجام بہاراں کیا ہوگا
ہر شاخ نشیمن جل تو گئی ہر پھول شرارا ہو تو گیا


آوارہ سہی ناکارہ سہی دیوانہ سہی تم سا نہ سہی
خود اپنا سہی میں یا نہ سہی کیا فکر تمہارا ہو تو گیا


مبہم ہی سہی واضح نہ سہی اک بار سہی پیہم نہ سہی
اتنی بھی توجہ کیا کم ہے کچھ ان کا اشارا ہو تو گیا


اب ڈوبیں کہ ابھریں کچھ بھی ہو ساحل کی تمنا کون کرے
موجوں کی سیاست دیکھ تو لی طوفاں کا نظارا ہو تو گیا


اس دور ترقی میں انساں خود اپنی حقیقت پا نہ سکا
فطرت کو مسخر کر تو لیا دنیا پہ اجارا ہو تو گیا