جس کو کہتے ہیں قضا یا موت جس کا نام ہے
جس کو کہتے ہیں قضا یا موت جس کا نام ہے
واقعی وہ دائمی راحت کا اک پیغام ہے
التزام چارہ سازی اک خیال خام ہے
چارہ گر میرے لئے تکلیف میں آرام ہے
اف رے یہ بیگانگی ہمدرد ہو تو کون ہو
ایک دل تھا وہ بھی صرف کثرت آلام ہے
عرصۂ رفتہ پہ نظریں پڑ رہی ہیں وہم کی
خواب کی تصویر ہے یا زندگی کی شام ہے
اپنی ہستی کا بھی اب آتا نہیں مجھ کو یقیں
الحذر کیسا جنون شوق کا انجام ہے
یہ حقیقت ہے کہ دونوں فطرتاً معصوم ہیں
پاک دامن حسن بھی ہے عشق بھی خوش نام ہے
دیکھتے ہی روح میں اک کیفیت سی آ گئی
ساقیا کیا بادۂ رنگیں کا پیارا جام ہے
اب تو فائقؔ اور بھی مشکل سے کچھ کٹنے لگی
عشق بھی تسکین خاطر کے لئے ناکام ہے