جن سے غم انتہا کے ملتے ہیں

جن سے غم انتہا کے ملتے ہیں
ان سے ہم مسکرا کے ملتے ہیں


وہ جو خود چل کے آ نہیں پاتے
ان سے ہم لوگ جا کے ملتے ہیں


اپنا پن اٹھ گیا ہے دنیا سے
لوگ دامن بچا کے ملتے ہیں


راہ روشن کے جو مسافر ہیں
سب سے وہ سر اٹھا کے ملتے ہیں


اہل دانش کی آستین میں بھی
دیکھیے بت انا کے ملتے ہیں


ان سے لذت کشید کرتی ہوں
دکھ جو غزلیں سنا کے ملتے ہیں