جینے کا مزہ ہے نہ ہے مرنے میں سکوں اب

جینے کا مزہ ہے نہ ہے مرنے میں سکوں اب
لے جائے کہاں دیکھیے صحرا کو جنوں اب


ہو جائے نہ یہ شہر بیاباں کبھی اک دن
جلوہ نہ ترے حسن کا باقی نہ فسوں اب


شکوہ ہے غم دل کا گلہ دہر کا تھوڑا
گزری جو شب ہجر میں کیسے نہ کہوں اب


برباد ہر اک شہر فسردہ گل و غنچے
کل جام تھا ہاتھوں میں مگر سر ہے نگوں اب


لے آؤں نہ میں کیوں اسے باتوں میں لگا کر
کہنا یہ برہمن کا ہے اچھا ہے شگوں اب


سنتا بھی نہیں جب کوئی ملتا بھی نہیں وہ
اب کوئی بتاؤ مجھے کیا عرض کروں اب


وارفتہ ہوا دل یہ کسی شوخ پہ جب سے
شہرہ ہے مرا شہر میں پر کیا میں کروں اب