دل کی لگی اگر ہے تو سود و زیاں میں کیا

دل کی لگی اگر ہے تو سود و زیاں میں کیا
رہنا جنوں کے ساتھ ٹھہرنا مکاں میں کیا


منظر کوئی نہیں ہے تو دیکھے کہاں کوئی
پھر خوف کیوں دلوں میں ہے پنہاں دھواں میں کیا


رکھ آئے ہم ہیں پیش نظر اس کے مدعا
اب دیکھنا کہ بات ہے شیریں زباں میں کیا


چہرہ ہی بس کمال کا ورنہ میں کیا کہوں
پکوان روکھے پھیکے ہیں اونچی دکاں میں کیا


مہکا ترے نفس سے ہے ہر گل کا پیرہن
رکھا ہے کیا بہار میں پنہاں خزاں میں کیا


کہنے کو شہر جاں میں رقیبوں کا ہے ہجوم
جب تم نہیں وہاں ہو تو شہر بتاں میں کیا


پرتو تمہارے حسن کا منظر میں ضو فگن
ورنہ یہ مہر و ماہ چھپا کہکشاں میں کیا


جینا ہمیں اگر ہے مقدر کے بس طفیل
پھر کیا کریں زمیں پہ رہیں آسماں میں کیا