دشت جو آج ہے کل قریۂ جاں بھی ہوگا
دشت جو آج ہے کل قریۂ جاں بھی ہوگا
دل میں جب خوں ہے تو آنکھوں سے رواں بھی ہوگا
ہو گئے غیر بھی کیا کیجے اسی کے آخر
دل کبھی دے کے نہ سوچا تھا زیاں بھی ہوگا
خوں بہا دیکھیے اب جائے یہ کس کے سر پر
بات نکلے گی تو کچھ ذکر پتا بھی ہوگا
بزم ہے رقص میں جگنو بھی چمکتے سر پر
شمع گل ہوتی تو ہر سمت دھواں بھی ہوگا
کہہ گئے حضرت واعظ بھی پتے کی باتیں
چھوڑ دوں گر تمہیں جنت میں مکاں بھی ہوگا
کب تلک کوئی فضاؤں میں اڑے گا پنچھی
موسم گل ہے ابھی رنگ خزاں بھی ہوگا
ڈر ہو کیوں رات کا ہے عمر ہی کتنی اس کی
صبح ہو جانے دو منزل کا نشاں بھی ہوگا