گلوں کی بات چلی ذکر نو بہار چلا

گلوں کی بات چلی ذکر نو بہار چلا
سکوں گیا تو کبھی چھوڑ کر قرار چلا


ملا نہ چین جنوں کو کہیں ٹھہرنے میں
فراز دار پہ بھی اس کا کاروبار چلا


رہا ہے غم سے عجب ربط اپنی ہستی کا
کہیں گیا میں یہ ہم راہ غم گسار چلا


جنوں کا رقص کہیں رقص مہ جبینوں کا
کہیں اداس کہیں کوئی اشک بار چلا


سکوں ملا تو ملا دل کو دشت وحشت میں
کہاں خرد کا بیاباں میں کاروبار چلا


خزاں کی بات چلی ذکر بھی چلا گل کا
چمن فسردہ بھی آزردہ سبزہ زار چلا


کہاں چلا کبھی جادو پری جمالوں کا
کسی کا کب ہے مرے دل پہ کوئی وار چلا