Hanif Danish Indori

حنیف دانش اندوری

حنیف دانش اندوری کے تمام مواد

10 غزل (Ghazal)

    زیست کی صورت نکالی ہے ابھی

    زیست کی صورت نکالی ہے ابھی میں نے توبہ توڑ ڈالی ہے ابھی جوڑ کر ٹکڑے تیری تصویر کے اک نئی صورت بنا لی ہے ابھی جو بھی مجھ کو بھول کر شاداب ہیں میں نے ان پر دھول ڈالی ہے ابھی زندگی عیب تنافر ہے مگر ٹکڑے کر کر کے نبھا لی ہے ابھی بن کے بیوی شيرنی ہو جائے گی دیکھنے میں بھولی بھالی ہے ...

    مزید پڑھیے

    سراب ہے کہ نہیں کیوں جناب ہے کہ نہیں

    سراب ہے کہ نہیں کیوں جناب ہے کہ نہیں ہماری زندگی مثل حباب ہے کہ نہیں ہماری بات کا ناصح جواب ہے کہ نہیں گناہ عشق پہ کوئی عذاب ہے کہ نہیں سبق پڑھیں گے محبت کا تجھ سے پر یہ بتا تری کتاب میں سوکھا گلاب ہے کی نہیں سبق کیوں امن کا ہم ہی پڑھیں کتابوں میں تمہارے پاس بھی کوئی کتاب ہے کہ ...

    مزید پڑھیے

    نگاہ یار میں تھوڑا سنور جاؤں تو دستک دوں

    نگاہ یار میں تھوڑا سنور جاؤں تو دستک دوں جو نظروں سے در دل تک پہنچ پاؤں تو دستک دوں سوالی ہوں ترے در کا انا ممتاز پر مجھ کو انا کے زعم سے باہر نکل آؤں تو دستک دوں یہ سوچا ہے تری محفل میں اک دن حشر برپاؤں قیامت اپنے سر پر میں اٹھا لاؤں تو دستک دوں یہی میں سوچ کے بھائی کے گھر سے پھر ...

    مزید پڑھیے

    جھکا کے سر نہ یوں دامن بچانا چاہیئے تھا

    جھکا کے سر نہ یوں دامن بچانا چاہیئے تھا انا پر آ گئی تھی سر کٹانا چاہیئے تھا ہوا ہموار دریا تھا شناور کا مقدر ہوا وہ پار جس کو ڈوب جانا چاہیئے تھا نصیحت کا تری یہ زاویہ کچھ اور ہوتا میاں ناصح تجھے بھی دل لگانا چاہیئے تھا مشقت سے بدلنی تھی ہتھیلی کہ لکیریں مقدر ہاتھ میں تھا ...

    مزید پڑھیے

    جھوٹ کو سچ تو مرے یار بنا سکتا ہے

    جھوٹ کو سچ تو مرے یار بنا سکتا ہے یہ ہنر سن تجھے سردار بنا سکتا ہے تجھ کو بھی حق ہے سیاست میں چلے جانے کا تو اگر ریت کی دیوار بنا سکتا ہے یہ نیا دور ترقی ہے یہاں سکوں سے کوئی خرقہ کوئی دستار بنا سکتا ہے مختلف روگ کی بس ایک دوا دے دے کر یہ مسیحا ہمیں بیمار بنا سکتا ہے زعم سجدوں کا ...

    مزید پڑھیے

تمام