جھانک کر ذات کے اندر یہ تماشا دیکھو
جھانک کر ذات کے اندر یہ تماشا دیکھو
شہر صحرا میں کبھی شہر میں صحرا دیکھو
بہتے دریا میں نظر آئے ہر اک بوند الگ
یہ نہیں معجزہ گر بوند میں دریا دیکھو
صوفیو معرفت اہل صفا تو یہ ہے
کبھی انسان میں انساں کا سراپا دیکھو
قرمزی رنگ لہو سے ہے پسینہ میرا
اور ارباب ہوس رنگ تمنا دیکھو
عمر بھر تم پہ رہے اہل تماشا کا ہجوم
عمر بھر تم یہ تماشا کھڑے تنہا دیکھو
خواب سازوں کی ہے ایجاد حسیں یہ امید
سدا اس آئنے میں تم رخ زیبا دیکھو
گر وہ نا بینا ہو کچھ حرج نہیں ہے شوکتؔ
رہنما ہو نہ مگر عقل کا اندھا دیکھو