جیسے مہماں کوئی آئے کسی مہمان کے بعد
جیسے مہماں کوئی آئے کسی مہمان کے بعد
شعر میں نے بھی کہے ہیں نئے رجحان کے بعد
فیصلہ سوچ کے کرنا کہیں رونا نہ پڑے
رکھ کے آیا ہوں میں آنکھیں ترے ایمان کے بعد
اس عنایت پہ میں اظہار کون سا رنگ
کشتیاں لے کے چلے آئے ہو طوفان کے بعد
میری آنکھوں کے مدینے میں وہی ہے اب تک
تھا جو قرآن سے پہلے ہے جو قرآن کے بعد
روشنی بانٹی یہاں میں نے چراغوں کے بغیر
زندگی تو نے بھی دیکھا مجھے تاوان کے بعد