جہاز اک دن سمے کے دوسرے ساحل سے پہنچیں گے
جہاز اک دن سمے کے دوسرے ساحل سے پہنچیں گے
ہمارے حال تک کچھ لوگ مستقبل سے پہنچیں گے
زمیں والو رصد گاہ زماں سے دیکھتے رہنا
ہمارے عکس نوری سال کے جھلمل سے پہنچیں گے
میں خود تو ہو چکا ہوں کائناتی دھول کا حصہ
مرے ذرات تم تک گرد لا حاصل سے پہنچیں گے
ہمیں دیکھو کہ کتنا سہل پہنچے نارسائی تک
غلط تم نے کہا تھا ہم یہاں مشکل سے پہنچیں گے
غزل دل کے گرامو فون پر بجتی ہوئی دھن ہے
جہاں پہنچے گی دھن ہم بھی وہاں تک دل سے پہنچیں گے
زمانوں پار جا نکلیں گے آنکھیں موند کر شاہدؔ
مقامات خبر تک خواب کی منزل سے پہنچیں گے