جب کبھی خواب وفا سے ہوش میں آتا ہے دل
جب کبھی خواب وفا سے ہوش میں آتا ہے دل
خود بہ خود اک یاس کے طوفاں میں کھو جاتا ہے دل
سر بہ سر افسانہ تھا اپنا جنوں پرور شباب
اب وہی بھولا ہوا افسانہ دہراتا ہے دل
ایک وہ دن تھے کہ کھو جاتا تھا ذوق عشق میں
اب محبت کے تصور سے بھی گھبراتا ہے دل
جب گھٹا ساون کی چھا جاتی ہے صحن باغ پر
شعلۂ بے تاب کی مانند بل کھاتا ہے دل
بے کسی ہائے محبت کی سنا کر داستاں
دل کو تڑپاتی ہوں میں اور مجھ کو تڑپاتا ہے دل
ہر قدم پر اک نیا منظر ہے میرے سامنے
کہہ نہیں سکتی کہاں مجھ کو لئے جاتا ہے دل
بلبل شوریدہ کا کوئی نہیں ہے غم گسار
یوں تو ہر غنچے کے پہلو میں نظر آتا ہے دل