بتوں کو کبریائی کیوں نہ آئی

بتوں کو کبریائی کیوں نہ آئی
خدا ہو کر خدائی کیوں نہ آئی


مزاج یار رنگیں تھا مرے کام
مری رنگیں نوائی کیوں نہ آئی


وفا بھی دل ربائی کا ہے انداز
تمہیں یہ دل ربائی کیوں نہ آئی


جو تم نے سیکھ لی غیر آشنائی
مجھے دشمن کی آئی کیوں نہ آئی


وفاداری ذرا تم کیوں نہ سیکھے
ہمیں کچھ بے وفائی کیوں نہ آئی


مجھے باد صبا سے یہ گلہ ہے
برائے دل کشائی کیوں نہ آئی


ہماری داستان درد سن کر
انہیں رقت نہ آئی کیوں نہ آئی


شب غم کی نہ صورت دیکھتی میں
اجل روز جدائی کیوں نہ آئی