جاتے جاتے وہ مجھے اپنی نشانی دے گیا
جاتے جاتے وہ مجھے اپنی نشانی دے گیا
زندگی بھر کے لئے آنکھوں میں پانی دے گیا
سنتے سنتے داستاں سو جائیں گے سب چارہ گر
ختم جو ہوگی نہیں ایسی کہانی دے گیا
سر مرے سینے پہ اس نے جب رکھا ہے زندگی
اس طرح دریائے دل کو وہ روانی دے گیا
بات بھی اتنی کہ بس اس نے کیا مجھ کو سلام
ہاں مگر لوگوں کے دل میں بد گمانی دے گیا
تھی غزل میری بہت بے ربط بے کیف و اثر
وہ مرے اشعار کو الفاظ و معنی دے گیا
بزم میں بے پردہ آیا مسکرا کر سامنے
ناتواں دل کو مرے پھر سے جوانی دے گیا
لے گیا ہم راہ اپنے وہ مکاں اور بام و در
ہے نظر سب کچھ مگر اک بے مکانی دے گیا