جاناں ہمارے درمیاں کیا کیا نہیں ہوا
جاناں ہمارے درمیاں کیا کیا نہیں ہوا
باتیں نہیں ہوئیں تھیں یا بوسہ نہیں ہوا
جاناں یہ یک بیک سے کہاں جا رہی ہو تم
اب تک ہمارا پیار تماشہ نہیں ہوا
جاناں یہ بے رخی نہ مجھے مار ڈالے گی
ہلکا سا التفات زیادہ نہیں ہوا
جاناں تمہاری فوٹو موبائل میں ہے مگر
بے چینیوں کا اس سے ازالہ نہیں ہوا
جاناں فی آنسے ہے تمہارا مگر سنو
مجھ کو تمہارا جانا گوارا نہیں ہوا
جاناں جو پھول تم نے رکھا تھا کتاب میں
اشکوں سے بھیگ کر بھی وہ تازہ نہیں ہوا
جاناں خدا کے واسطے اک بار بول دو
کاشفؔ کے بن تمہارا گزارا نہیں ہوا